Powered By Blogger

Monday, November 11, 2024

میں نےابراہیمی مذاہب کومنسوخ کرنےکافیصلہ کیوں کیا؟

 میں نےابراہیمی مذاہب کومنسوخ کرنےکافیصلہ کیوں کیا؟


"ابراہیمی مذاہب سے مایوسی — میری سوچ اور راستہ"

وقت کے ساتھ ساتھ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے اور زندگی میں جو راستہ اختیار کرتا ہے، وہ اکثر ان تجربات کا عکاس ہوتا ہے۔ میرے سفر کا آغاز ایک ایسی سوچ سے ہوا جس نے مجھے دین کی طرف کھینچا، لیکن جیسے جیسے میں نے مذہبی تنظیموں اور معاشرتی رویوں کو قریب سے دیکھا، میرے خیالات بدلنے لگے۔ یہاں میں اپنے خیالات اور تجربات کو آپ سب کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں تاکہ ہم سب غوروفکر کریں کہ ہمارے معاشرے میں یہ حالات کیوں ہیں۔


آج سے 2 یا 3 سال پہلے میں ایک کمپنی میں بطور ڈرائیور کی جاب کررہا تھا اور میری پوسٹنگ انفراشیئر طارق روڈ  پر تھی جہاں سب پڑھے لکھے لوگ کام کرتے تھے، ایک دن اندرون سندھ کے دورے پر راستے میں ایک ہوٹل پر بیٹھے تھے جس میں 2 ہندو انجینیئرز اور ایک مسلم تھے ان میں سے ہندو انجینیئر نے مجھ سے ڈائریکٹ سوال کیا کہ میرا کردار کیا ہے ؟ تو میں نے اسکے سوال کے جواب میں اس سے پوچھا کہ جیسے تمام مذاہب میں قربِ قیامت کی پہلے کسی انسان کی پیشن گوئی کی گئی ہے  جیسے اسلام میں مہدی، عیسائیت میں عیسیٰ اور یہودیت میں مسیحا ، کیا تمہارے مذہب میں بھی ایسی ہی کوئی پیشن گوئی کی گئی ہے تو اس نے کہا کہ ہاں ہمارے مذہب میں بھی ایسی ہی پیشن گوئی ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ تمام مذاہب کے اس کردار کی عکاسی میں ہوں یعنی وہ شخص میں ہوں جس پر جو انجینیئر مسلمان تھا اس کے تاثرات اور ریمارکس سن کر میں نے دل میں سوچا کہ یہ حقیقت مسلمانوں کو بتانے یا سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں، مسلمانوں کی تربیت میں تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے اسی لئیے آج مسلمان تحقیق کے لفظ سے ہی ناآشنا ہیں اور نہ ہی حق و سچ کو پہچاننے کے اہل ہیں۔


گزشتہ 20 سالوں سے زیادہ عرصہ میں اس بات پر فوکس کرتا رہا کہ میری آوازیامیراپیغام کسی طرح سےعام انسان تک پہنچ سکے جس کیلئے میں کوششیں بھی کرتا رہا سوشل میڈیا پر، مگرکمال آفریں ہے کہ یہ مسلمانوں کا ٹولہ ہی میری آواز کو دبانے کیلئے کارفرمارہااورتھوڑے تھوڑےعرصے بعد میری سوشل میڈیاآئی ڈی بلاک کردی جاتی تھی۔ یہ کیسا خؤف ہے کہ کسی کی بھی زبان پرمیراذکرتک نہیں آتا۔ اسکے برعکس یہ اسلام کو مسلسل استعمال کرکےاپنی جیبیں بھرتے رہے، مذہب کو استعمال کرنا یہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اوراس سےکمانےکا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ یہ گیدڑسنگی مجھے اس وقت ملی جب میں نے امام مہدی کی ٹوپی اتارکرعیسیٰ کی ٹوپی پہنی اوربھورے (ٹرمپو) کوچنےکی جھاڑپرچڑھایا، تب سے میرے سوشل میڈیا اکاونٹ کو بند نہیں کیا گیا۔


یہ ساری کہانی صرف یہ باورکرانے کیلئے ہے کہ پاکستان کےعام آدمی کوجوبات میری یہ تحریر پڑھ کرمعلوم ہوری ہے اسے یہ بھی معلوم کرنا چاہیئےکہ ان 20 سالوں میں ان کے چہیتے لیڈروں، سیاست دانوں، اشرافیا، تمام نام نہاد اینکرپرسن،میڈیا ہاؤسز، اور حکومتی اہلکاروں نے کتنی ترقی کی اور کس نے کتنا پیسہ کمایا۔


1. دکھاوا یا حقیقی دینداری؟

میں نے دیکھا کہ معاشرے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون زیادہ دیندار دکھائی دیتا ہے۔ لوگ بظاہر نیک باتیں کرتے ہیں، مگر ان کے عمل اس سے بہت مختلف ہیں۔ مذہب کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے، زیادہ تر لوگ صرف ظاہری طور پر نیک بننے کی کوشش میں مگن ہیں۔ یہ رویہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کو اپنے دل سے قبول کرتے ہیں، یا یہ سب محض ایک ظاہری عمل ہے؟


جب میں نے محسوس کیا کہ یہاں سارے مسلمان صرف اچھی اچھی باتیں کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں اوردنیا میں اپنے آپ کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تب میں نے تبلیغی جماعت اور ایم کیو ایم کے بعد طالبان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا اور اپنی راہ لی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہ تمام لوگ صرف اور صرف دکھاوے کی زندگی پر فوکس کیئے ہوئے ہیں ان کا مذہب سے کسی قسم کا کوئی لگاؤ یا تعلق نہیں اور نہ ہی یہ تمام لوگ اپنی روش کو چھوڑنے والے ہیں۔ 


3. سیاست، مذہب اور کرپشن: دنیا میں کس طرح مذہب کو سیاست اور اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں کہیں اسلامی فوج، کہیں مسیحیت کے نام پر لڑائیاں، اور کہیں انسانیت کا دکھاوا کیا جا رہا ہے۔  غور و فکر کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی خدا کی عبادت اور اس کا دین ہمیں لڑائی اور نفرت سکھاتا ہے؟ یا پھر ہم اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لئے اسے ڈھال بنا لیتے ہیں؟


سال 2010 کو جب میں سیاسی جماعت ایم کیو ایم اور تبلیغی جماعت اور طالبان کے ساتھ مل کر خلافت لانے کی کوششیں کرکے جان گیا کہ یہ سب اسلام یا مذہب کو صرف اور صرف اپنی روزی روٹی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اللہ رسول کا نام لیکرمالی یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہی ان کا مقصد ہے، یہ لوگ بھی میرے ساتھ انقلاب کے نعرے لگا کر کنی کتراجاتے تھے۔ تب میں نے اکیلے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اوربحیثیت امام مہدی پاکستان کے سجیلےجوانوں اورسپہہ سالاروں کوپاکستان میں موجود امریکیوں کو ٹھکانے لگانے اور اسرائیل تک اپنی خلافت نافذ کرنے کا ببانگ دہل اعلان کیا تومجھ پراوربھی اسرارورموزآشکار ہوئے کہ یہ سب دھوکہ، دکھاوا اشرافیہ کا قائم کردہ ہے، نہ تو طالبان میرے کام آسکتے ہیں اورنہ ہی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت، سب کے سب خوف اور نرگیسیت میں مبتلا ہیں۔ 



2. نرگسیت اور ماضی کی خود فریبی

ہمارے معاشرے میں نرگسیت، یعنی خود پسندی اور خود فریبی کس حد تک موجود ہے۔ ہم اپنے ماضی کو لے کر ایک عجیب فخر محسوس کرتے ہیں اور موجودہ حالات کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اللہ پر چھوڑ کر ہم بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کوسوچنا چاہیے کہ کیا یہ رویہ ہمیں حقیقت سے دور نہیں کر رہا؟ کیا ہمیں اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار نہیں بننا چاہیے؟


پاکستان آنے کے بعد مجھے اور شدت سے ادراک ہوا کہ یہ مسلمان قوم نرگیسیت کا شکار ہے اپنے ماضی کولیکرایک عجیب وہم سا احساس انہیں سکون دیتا ہےاورہرکرنے والی بات یا کام کو وہ اللہ کے سپرد کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں، اورغلامی کے طوق کو گلے کاہارسمجھتے ہیں۔ 



3. مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ

سال 2010میں جب میں مذہبی (تبلیغی)، سیاسی(ایم کیوایم)اور عسکری(طالبان) تنظیموں کےساتھ ملکربحیثیت امام مہدی ایک اسلامی خلافت قائم کرنےکی کوشش میں شامل ہواتوحقیقت کچھ اورہی نکلی۔ ہرطرف اپنے مفادات کے لیے دین کواستعمال کرنےکا رجحان پایاگیا۔ یہ تنظیمیں اللہ،رسول کےساتھ انقلاب کانعرہ تولگاتی تھیں مگران کامقصدصرف ذاتی اورمالی فائدہ تھا۔ اس تجربےنےمجھے یہ احساس دلایا کہ مذہب کوسیاست میں استعمال کرنالوگوں کودھوکہ دینےاوراپنےمقاصدکوپوراکرنےکاایک ذریعہ بن چکاہے۔

مجھے یاد ہے سال 2003 میں جب امریکہ (بُش) اور برطانیہ (ٹونی بلیئر) نےعراق میں جھوٹی کہانی بنا کرایک پورے ملک کو تاراج کردیا اورڈھٹائی کیساتھ میڈیا پرآکرسوری کہہ دیا کہ ہم سےغلطی ہوئی، تب میں نے ٹونی بلیئر کو خط لکھا تھا وہ بھی بحیثیت امام مہدی، کہ میں یاد رکھوں گا یہ سب جو تم نے کیا ہے، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں سال 2003 میں بھی میں امام مہدی تھا اوراپنی زندگی کوبہتربنانے کی کوششوں میں مصروف تھا جوکہ آج تک جاری ہے۔ مگرنرگیسیت کی بیماری میں مبتلا مسلمانوں کےدرمیاں رہ کرمیں کیا خاک ترقی کروں گا۔ یہاں ہرانسان دوسرےانسان سے فائدہ حاصل کرنے کے چکرمیں لگا ہوا ہے یہ کسی کو کیا خآک فائدہ پہچائیں گے۔


4. فوجی طاقت اور خوف کی فضا

میرے تجربات نے مجھے یہ سکھایا کہ طاقتور ادارے کس طرح اپنے مفادات کے لیے عوام میں خوف کی فضا بناتے ہیں اور لوگوں اور مذہبی تنظیموں کوکواپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ خوف اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عام آدمی سچ بولنے یا سوال کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ یہ رویہ ہمیں سوچنے پرمجبورکرتا ہے کہ کیا واقعی ہمیں اپنی حقیقت سے دوررکھنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے؟ یا صرف اپنی حاکمیت کو دوم بخشنے کیلئےشیطان امریکہ کے ڈالروں کی خاطر یہ سب کیا جارہا ہے؟


میں نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے بعد جو لوگ اور جماعتیں انقلاب کا راگ اگلتی تھیں وہ کیسےغائب ہوئیں اورمیں نے کبھی کسی مسلمان کے منہ سے اس موضوع پر کوئی لب کشائی نہ دیکھی، یہ کیسی ڈھٹائی تھی اس کا ادراک بھی کچھ عرصے بعد آشکار ہوا وہ یہ کہ  میری پریس کانفرنس کے بعدپاکستان آرمی (جو کہ ایک موقع پرستوں کا ٹولہ ہے) نے بڑی پھرتی دکھائی اور34 اسلامی ملکوں کو بہلاپھسلا کراسلامی فوج کی بنیاد ڈالی اوراسکی سپہہ سالاری بھی حاصل کرلی، حالانکہ میں اکیلا ہی چلا تھاامریکہ اوراسرائیل کوٹھکانےلگانے،مجھےنہ پہلےکسی فوج کی ضرورت تھی اورنہ ہی آج ہے، میں آج بھی اکیلاہی کافی ہوں ان شیطانوں سے نپٹنے کیلئے، مگر جو خوف کا ماحول اور فضا پاکستان آرمی نے بنائی ہوئی ہے اپنی سلطنت کو کھڑا رکھنے کیلئے اس کی تعریف کرنا بنتی ہے کیونکہ اتنےموثرطریقے سے اس قوم کوچ بنایا اورڈرایا ہوا ہے کہ بیچارہ ایک عام پاکستان جو کہ اب ایک مذہبی ذہنی زومبی بن چکا ہے وہ ان کے خلاف بولنے کی نہ تو ہمت رکھتا ہے بلکہ سوچنے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں یہ غائب ہی نہ کردیں اسے۔ 


پاکستان آرمی کوشیطان امریکہ کی ٹیم کا فرنٹ مین بننے پراور امام مہدی کو یعنی مجھے منظرپرنہ آنے دینے پرہی یہ ڈالربطورقرض ان پربارش کی  جاتی ہے جو کہ کرپشن کی نذر ہوکر واپس ان بیرونی ملکوں کے بینکوں میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔اس پر بس نہیں یہ مسلمان ڈالرز کیلئے جوامام مہدی کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں یہی لوگ معاشرے میں اتنا خوف پھیلا چکے ہیں کہ میرے بتانےاوراکسانے پربھی کسی پاکستانی اینکریامیڈیا گروپ یا کسی بھی پاکستانی میڈیا پرسن نے میرے بارے میں کبھی کوئی بات میڈیا پرکی ہو، نہ جانے ان کو کونساخوف ہے جس کی وجہ سے یہ سارے مسلمان اپنے اپنے میڈیا، سوشل میڈیا پرسچ اورحق کا اگلدان لیکرجھوٹ پرجھوٹ بولتے جارہے ہیں وہ بھی اللہ رسول کا نام لیکر۔ 


مجھے مزید حیرت اس بات پر ہے کہ حاضر سروس اوردیٹائرڈ فوجی حضرات بھی شرمندگی سے اس موضؤع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ تو مسلمانؤں کا حال احوال ہے۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے پھر کبھی سہی۔



6. سوال اٹھانا اور خوداحتسابی

آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کب اپنے آپ سے سوال کریں گے؟ کیا ہم واقعی اپنے دین اور اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا صرف رسم و رواج نبھا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگی میں حقیقی معنوں میں اخلاقیات اورانصاف کی روشنی لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنی دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ دورِ حآضر کی دنیا میں جاپان نے جب دیکھا کہ ان کا مذہب ان کیلئے نقصان کا سبب بن رہا ہے تو پوری قوم نے ایک نیا مذہب بنا کر اسے اختیار کیا اور آج ان کی کامیابی دنیا کے سامنے ہے۔

یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں میں تفریق پیدا کرتا ہے، میں 20 سالوں سے امام مہدی بن کر جدو جہد کرتا رہا اور یہ اسلامی فوج کے سپہ سالار میری آواز دبا کراور اسلام کو بیچ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے، اور تو اور عیسائی مذہب کی قومیں بھی اپنے مذہب کو صرف آمدنی کا ذریعہ ہی سمجھتے ہیں، یونائٹیڈ نیشن والے بھی عیسیٰ (مذہب) کے نام پرپیسہ کمانےکوترجیح دیتےرہے، کہیں سے بھی میرا راستہ نہیں کھلا، تب میں نے خودی میں آنے کا فیصلہ کیا اوراپنی خودی میں سما گیا اور مسلمانوں کے امام مہدی اورعیسائیوں کے خدا کے بیٹے یا مسیحا کے دیومالائی کردارسے باہرآگیا۔


اب میں چاہتا ہوں کہ بھورا (ٹرمپو)امریکہ کا صدربنکرمیرے لیئےکام کرے،سب سے پہلے دنیا میں جاری جنگوں کوختم کرےاور مسجدوں اورچرچوں میں خدا کی عبادت ختم کرکے انہیں جنریشن زی کی تربیت کیلئے استعمال کیا جائے تاکہ آنے والے مستقبل میں آرٹیفشل انٹیلیجنس کو وسعت دینے کیلئےایک نسل تیارہو۔  اگرکوئی قوم سراٹھائےجیسے کہ مسلمان توانہیں کہنا کہ امام مہدی کا حکم ہے اوراگرکوعیسائی آوازاٹھائے توکہنا کہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے،جواب خدا کے روپ میں بھگوان کالکی بن کرآیا ہے۔ تم لوگ تومذہب کےکھلواڑمیں چیمپئن ہو، آسانی سے کرلوگے یہ سب۔ ہے ناں ؟


یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو پارتی شروع ہوئی ہے، مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں ؟

جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔



میں نےابراہیمی مذاہب کومنسوخ کرنےکافیصلہ کیوں کیا؟

 میں نےابراہیمی مذاہب کومنسوخ کرنےکافیصلہ کیوں کیا؟

"ابراہیمی مذاہب سے مایوسی — میری سوچ اور راستہ"

وقت کے ساتھ ساتھ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے اور زندگی میں جو راستہ اختیار کرتا ہے، وہ اکثر ان تجربات کا عکاس ہوتا ہے۔ میرے سفر کا آغاز ایک ایسی سوچ سے ہوا جس نے مجھے دین کی طرف کھینچا، لیکن جیسے جیسے میں نے مذہبی تنظیموں اور معاشرتی رویوں کو قریب سے دیکھا، میرے خیالات بدلنے لگے۔ یہاں میں اپنے خیالات اور تجربات کو آپ سب کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں تاکہ ہم سب غوروفکر کریں کہ ہمارے معاشرے میں یہ حالات کیوں ہیں۔


آج سے 2 یا 3 سال پہلے میں ایک کمپنی میں بطور ڈرائیور کی جاب کررہا تھا اور میری پوسٹنگ انفراشیئر طارق روڈ  پر تھی جہاں سب پڑھے لکھے لوگ کام کرتے تھے، ایک دن اندرون سندھ کے دورے پر راستے میں ایک ہوٹل پر بیٹھے تھے جس میں 2 ہندو انجینیئرز اور ایک مسلم تھے ان میں سے ہندو انجینیئر نے مجھ سے ڈائریکٹ سوال کیا کہ میرا کردار کیا ہے ؟ تو میں نے اسکے سوال کے جواب میں اس سے پوچھا کہ جیسے تمام مذاہب میں قربِ قیامت کی پہلے کسی انسان کی پیشن گوئی کی گئی ہے  جیسے اسلام میں مہدی، عیسائیت میں عیسیٰ اور یہودیت میں مسیحا ، کیا تمہارے مذہب میں بھی ایسی ہی کوئی پیشن گوئی کی گئی ہے تو اس نے کہا کہ ہاں ہمارے مذہب میں بھی ایسی ہی پیشن گوئی ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ تمام مذاہب کے اس کردار کی عکاسی میں ہوں یعنی وہ شخص میں ہوں جس پر جو انجینیئر مسلمان تھا اس کے تاثرات اور ریمارکس سن کر میں نے دل میں سوچا کہ یہ حقیقت مسلمانوں کو بتانے یا سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں، مسلمانوں کی تربیت میں تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے اسی لئیے آج مسلمان تحقیق کے لفظ سے ہی ناآشنا ہیں اور نہ ہی حق و سچ کو پہچاننے کے اہل ہیں۔


گزشتہ 20 سالوں سے زیادہ عرصہ میں اس بات پر فوکس کرتا رہا کہ میری آوازیامیراپیغام کسی طرح سےعام انسان تک پہنچ سکے جس کیلئے میں کوششیں بھی کرتا رہا سوشل میڈیا پر، مگرکمال آفریں ہے کہ یہ مسلمانوں کا ٹولہ ہی میری آواز کو دبانے کیلئے کارفرمارہااورتھوڑے تھوڑےعرصے بعد میری سوشل میڈیاآئی ڈی بلاک کردی جاتی تھی۔ یہ کیسا خؤف ہے کہ کسی کی بھی زبان پرمیراذکرتک نہیں آتا۔ اسکے برعکس یہ اسلام کو مسلسل استعمال کرکےاپنی جیبیں بھرتے رہے، مذہب کو استعمال کرنا یہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اوراس سےکمانےکا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ یہ گیدڑسنگی مجھے اس وقت ملی جب میں نے امام مہدی کی ٹوپی اتارکرعیسیٰ کی ٹوپی پہنی اوربھورے (ٹرمپو) کوچنےکی جھاڑپرچڑھایا، تب سے میرے سوشل میڈیا اکاونٹ کو بند نہیں کیا گیا۔


یہ ساری کہانی صرف یہ باورکرانے کیلئے ہے کہ پاکستان کےعام آدمی کوجوبات میری یہ تحریر پڑھ کرمعلوم ہوری ہے اسے یہ بھی معلوم کرنا چاہیئےکہ ان 20 سالوں میں ان کے چہیتے لیڈروں، سیاست دانوں، اشرافیا، تمام نام نہاد اینکرپرسن،میڈیا ہاؤسز، اور حکومتی اہلکاروں نے کتنی ترقی کی اور کس نے کتنا پیسہ کمایا۔


1. دکھاوا یا حقیقی دینداری؟

میں نے دیکھا کہ معاشرے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون زیادہ دیندار دکھائی دیتا ہے۔ لوگ بظاہر نیک باتیں کرتے ہیں، مگر ان کے عمل اس سے بہت مختلف ہیں۔ مذہب کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے، زیادہ تر لوگ صرف ظاہری طور پر نیک بننے کی کوشش میں مگن ہیں۔ یہ رویہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کو اپنے دل سے قبول کرتے ہیں، یا یہ سب محض ایک ظاہری عمل ہے؟


جب میں نے محسوس کیا کہ یہاں سارے مسلمان صرف اچھی اچھی باتیں کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں اوردنیا میں اپنے آپ کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تب میں نے تبلیغی جماعت اور ایم کیو ایم کے بعد طالبان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا اور اپنی راہ لی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہ تمام لوگ صرف اور صرف دکھاوے کی زندگی پر فوکس کیئے ہوئے ہیں ان کا مذہب سے کسی قسم کا کوئی لگاؤ یا تعلق نہیں اور نہ ہی یہ تمام لوگ اپنی روش کو چھوڑنے والے ہیں۔ 


2. سیاست، مذہب اور کرپشن: دنیا میں کس طرح مذہب کو سیاست اور اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں کہیں اسلامی فوج، کہیں مسیحیت کے نام پر لڑائیاں، اور کہیں انسانیت کا دکھاوا کیا جا رہا ہے۔  غور و فکر کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی خدا کی عبادت اور اس کا دین ہمیں لڑائی اور نفرت سکھاتا ہے؟ یا پھر ہم اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لئے اسے ڈھال بنا لیتے ہیں؟


سال 2010 کو جب میں سیاسی جماعت ایم کیو ایم اور تبلیغی جماعت اور طالبان کے ساتھ مل کر خلافت لانے کی کوششیں کرکے جان گیا کہ یہ سب اسلام یا مذہب کو صرف اور صرف اپنی روزی روٹی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اللہ رسول کا نام لیکرمالی یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہی ان کا مقصد ہے، یہ لوگ بھی میرے ساتھ انقلاب کے نعرے لگا کر کنی کتراجاتے تھے۔ تب میں نے اکیلے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اوربحیثیت امام مہدی پاکستان کے سجیلےجوانوں اورسپہہ سالاروں کوپاکستان میں موجود امریکیوں کو ٹھکانے لگانے اور اسرائیل تک اپنی خلافت نافذ کرنے کا ببانگ دہل اعلان کیا تومجھ پراوربھی اسرارورموزآشکار ہوئے کہ یہ سب دھوکہ، دکھاوا اشرافیہ کا قائم کردہ ہے، نہ تو طالبان میرے کام آسکتے ہیں اورنہ ہی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت، سب کے سب خوف اور نرگیسیت میں مبتلا ہیں۔ 



3. نرگسیت اور ماضی کی خود فریبی

ہمارے معاشرے میں نرگسیت، یعنی خود پسندی اور خود فریبی کس حد تک موجود ہے۔ ہم اپنے ماضی کو لے کر ایک عجیب فخر محسوس کرتے ہیں اور موجودہ حالات کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اللہ پر چھوڑ کر ہم بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کوسوچنا چاہیے کہ کیا یہ رویہ ہمیں حقیقت سے دور نہیں کر رہا؟ کیا ہمیں اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار نہیں بننا چاہیے؟


پاکستان آنے کے بعد مجھے اور شدت سے ادراک ہوا کہ یہ مسلمان قوم نرگیسیت کا شکار ہے اپنے ماضی کولیکرایک عجیب وہم سا احساس انہیں سکون دیتا ہےاورہرکرنے والی بات یا کام کو وہ اللہ کے سپرد کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں، اورغلامی کے طوق کو گلے کاہارسمجھتے ہیں۔ 



4. مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ

سال 2010میں جب میں مذہبی (تبلیغی)، سیاسی(ایم کیوایم)اور عسکری(طالبان) تنظیموں کےساتھ ملکربحیثیت امام مہدی ایک اسلامی خلافت قائم کرنےکی کوشش میں شامل ہواتوحقیقت کچھ اورہی نکلی۔ ہرطرف اپنے مفادات کے لیے دین کواستعمال کرنےکا رجحان پایاگیا۔ یہ تنظیمیں اللہ،رسول کےساتھ انقلاب کانعرہ تولگاتی تھیں مگران کامقصدصرف ذاتی اورمالی فائدہ تھا۔ اس تجربےنےمجھے یہ احساس دلایا کہ مذہب کوسیاست میں استعمال کرنالوگوں کودھوکہ دینےاوراپنےمقاصدکوپوراکرنےکاایک ذریعہ بن چکاہے۔

مجھے یاد ہے سال 2003 میں جب امریکہ (بُش) اور برطانیہ (ٹونی بلیئر) نےعراق میں جھوٹی کہانی بنا کرایک پورے ملک کو تاراج کردیا اورڈھٹائی کیساتھ میڈیا پرآکرسوری کہہ دیا کہ ہم سےغلطی ہوئی، تب میں نے ٹونی بلیئر کو خط لکھا تھا وہ بھی بحیثیت امام مہدی، کہ میں یاد رکھوں گا یہ سب جو تم نے کیا ہے، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں سال 2003 میں بھی میں امام مہدی تھا اوراپنی زندگی کوبہتربنانے کی کوششوں میں مصروف تھا جوکہ آج تک جاری ہے۔ مگرنرگیسیت کی بیماری میں مبتلا مسلمانوں کےدرمیاں رہ کرمیں کیا خاک ترقی کروں گا۔ یہاں ہرانسان دوسرےانسان سے فائدہ حاصل کرنے کے چکرمیں لگا ہوا ہے یہ کسی کو کیا خآک فائدہ پہچائیں گے۔


5. فوجی طاقت اور خوف کی فضا

میرے تجربات نے مجھے یہ سکھایا کہ طاقتور ادارے کس طرح اپنے مفادات کے لیے عوام میں خوف کی فضا بناتے ہیں اور لوگوں اور مذہبی تنظیموں کوکواپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ خوف اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عام آدمی سچ بولنے یا سوال کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ یہ رویہ ہمیں سوچنے پرمجبورکرتا ہے کہ کیا واقعی ہمیں اپنی حقیقت سے دوررکھنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے؟ یا صرف اپنی حاکمیت کو دوم بخشنے کیلئےشیطان امریکہ کے ڈالروں کی خاطر یہ سب کیا جارہا ہے؟


میں نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے بعد جو لوگ اور جماعتیں انقلاب کا راگ اگلتی تھیں وہ کیسےغائب ہوئیں اورمیں نے کبھی کسی مسلمان کے منہ سے اس موضوع پر کوئی لب کشائی نہ دیکھی، یہ کیسی ڈھٹائی تھی اس کا ادراک بھی کچھ عرصے بعد آشکار ہوا وہ یہ کہ  میری پریس کانفرنس کے بعدپاکستان آرمی (جو کہ ایک موقع پرستوں کا ٹولہ ہے) نے بڑی پھرتی دکھائی اور34 اسلامی ملکوں کو بہلاپھسلا کراسلامی فوج کی بنیاد ڈالی اوراسکی سپہہ سالاری بھی حاصل کرلی، حالانکہ میں اکیلا ہی چلا تھاامریکہ اوراسرائیل کوٹھکانےلگانے،مجھےنہ پہلےکسی فوج کی ضرورت تھی اورنہ ہی آج ہے، میں آج بھی اکیلاہی کافی ہوں ان شیطانوں سے نپٹنے کیلئے، مگر جو خوف کا ماحول اور فضا پاکستان آرمی نے بنائی ہوئی ہے اپنی سلطنت کو کھڑا رکھنے کیلئے اس کی تعریف کرنا بنتی ہے کیونکہ اتنےموثرطریقے سے اس قوم کوچ بنایا اورڈرایا ہوا ہے کہ بیچارہ ایک عام پاکستان جو کہ اب ایک مذہبی ذہنی زومبی بن چکا ہے وہ ان کے خلاف بولنے کی نہ تو ہمت رکھتا ہے بلکہ سوچنے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں یہ غائب ہی نہ کردیں اسے۔ 


پاکستان آرمی کوشیطان امریکہ کی ٹیم کا فرنٹ مین بننے پراور امام مہدی کو یعنی مجھے منظرپرنہ آنے دینے پرہی یہ ڈالربطورقرض ان پربارش کی  جاتی ہے جو کہ کرپشن کی نذر ہوکر واپس ان بیرونی ملکوں کے بینکوں میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔اس پر بس نہیں یہ مسلمان ڈالرز کیلئے جوامام مہدی کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں یہی لوگ معاشرے میں اتنا خوف پھیلا چکے ہیں کہ میرے بتانےاوراکسانے پربھی کسی پاکستانی اینکریامیڈیا گروپ یا کسی بھی پاکستانی میڈیا پرسن نے میرے بارے میں کبھی کوئی بات میڈیا پرکی ہو، نہ جانے ان کو کونساخوف ہے جس کی وجہ سے یہ سارے مسلمان اپنے اپنے میڈیا، سوشل میڈیا پرسچ اورحق کا اگلدان لیکرجھوٹ پرجھوٹ بولتے جارہے ہیں وہ بھی اللہ رسول کا نام لیکر۔ 


مجھے مزید حیرت اس بات پر ہے کہ حاضر سروس اوردیٹائرڈ فوجی حضرات بھی شرمندگی سے اس موضؤع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ تو مسلمانؤں کا حال احوال ہے۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے پھر کبھی سہی۔



6. سوال اٹھانا اور خوداحتسابی

آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کب اپنے آپ سے سوال کریں گے؟ کیا ہم واقعی اپنے دین اور اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا صرف رسم و رواج نبھا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگی میں حقیقی معنوں میں اخلاقیات اورانصاف کی روشنی لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنی دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ دورِ حآضر کی دنیا میں جاپان نے جب دیکھا کہ ان کا مذہب ان کیلئے نقصان کا سبب بن رہا ہے تو پوری قوم نے ایک نیا مذہب بنا کر اسے اختیار کیا اور آج ان کی کامیابی دنیا کے سامنے ہے۔

یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں میں تفریق پیدا کرتا ہے، میں 20 سالوں سے امام مہدی بن کر جدو جہد کرتا رہا اور یہ اسلامی فوج کے سپہ سالار میری آواز دبا کراور اسلام کو بیچ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے، اور تو اور عیسائی مذہب کی قومیں بھی اپنے مذہب کو صرف آمدنی کا ذریعہ ہی سمجھتے ہیں، یونائٹیڈ نیشن والے بھی عیسیٰ (مذہب) کے نام پرپیسہ کمانےکوترجیح دیتےرہے، کہیں سے بھی میرا راستہ نہیں کھلا، تب میں نے خودی میں آنے کا فیصلہ کیا اوراپنی خودی میں سما گیا اور مسلمانوں کے امام مہدی اورعیسائیوں کے خدا کے بیٹے یا مسیحا کے دیومالائی کردارسے باہرآگیا۔


اب میں چاہتا ہوں کہ بھورا (ٹرمپو)امریکہ کا صدربنکرمیرے لیئےکام کرے،سب سے پہلے دنیا میں جاری جنگوں کوختم کرےاور مسجدوں اورچرچوں میں خدا کی عبادت ختم کرکے انہیں جنریشن زی کی تربیت کیلئے استعمال کیا جائے تاکہ آنے والے مستقبل میں آرٹیفشل انٹیلیجنس کو وسعت دینے کیلئےایک نسل تیارہو۔  اگرکوئی قوم سراٹھائےجیسے کہ مسلمان توانہیں کہنا کہ امام مہدی کا حکم ہے اوراگرکوعیسائی آوازاٹھائے توکہنا کہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے،جواب خدا کے روپ میں بھگوان کالکی بن کرآیا ہے۔ تم لوگ تومذہب کےکھلواڑمیں چیمپئن ہو، آسانی سے کرلوگے یہ سب۔ ہے ناں ؟


یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو پارتی شروع ہوئی ہے، مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں ؟

جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔



Tuesday, September 10, 2024

The Oxford Capacity Analysis Test - Church of Scientology


ایک سال اور گزر گیا ہر سال کی طرح

آج سے ٹھیک ایک سال پہلے، یعنی ستمبر 2023 میں، میں اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی اور اہداف کو جانچنے کے حوالے سے 200 سوالات پر مبنی "آکسفورڈ کیپسیٹی اینالیسس (او سی اے) ٹیسٹ" کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ ٹیسٹ سائینٹالوجی چرچ کی نگرانی میں ہونے والا ایک آن لائن شخصیت کا تجزیاتی ٹیسٹ ہے۔ اُس وقت آرٹیفشل انٹیلیجنس میرے جوابات یا متوقع لائحہِ عمل سے بالکل بھی متفق نہیں ہو رہی تھی کیونکہ میری مستقبل کی منصوبہ بندی میں کوئی بیک اپ پلان موجود نہیں تھا۔ میری ساری توجہ صرف موجودہ حالات، جذبات اور سرگرمیوں پر مرکوز تھی    ، اور کسی ہنگامی صورت حال کے لیے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔اُسی دوران جو ہونا تھا، وہی ہوا۔ رات کو جب میں سو رہا تھا تو حسبِ سابق میرے گھر میں پھر سے چوری ہوگئی۔ میرا کمپیوٹر، موبائل فون اور ضروری کاغذات ایک بار پھر چوری کر لئے گئے۔ میں ایک بار پھر چور اور پولیس کے جھمیلوں میں پھنس گیا۔

آپ میں سے کئی لوگ یہ جاننے کے لیےمتجسس ہوں گے کہ یہ آکسفورڈ کیپسیٹی اینالیسس (او سی اے) ٹیسٹ کیا ہے؟  

تو اس کا جواب یہ ہے کہ آکسفورڈ کیپسیٹی اینالیسس (او سی اے) ٹیسٹ چرچ آف سائنٹالوجی کا ایک آن لائن ٹیسٹ ہے جو کسی شخص کی صلاحیتوں اورمنصوبہ بندی کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، تاکہ اس کی عمل پذیری کے عوامل کو مثبت انداز میں جانچا جا سکے۔

میرا منصوبہ یا ہدف  صرف یہ تھا کہ میں کسی نہ کسی طرح سے سوشل میڈیا پرآکر پاکستانی عوام کو وہ  حقیقت وسچائی بتاؤں جو کہ اب بارود بن چکی ہے جیسے کہ: 

جب پاکستانی عوام کو پتا چلے گا کہ: 

 کیسےاورکن حربوں اور ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے پاکستان کے  شیطانی فوجی جرنیلوں/ حکمرانوں نےامریکہ کے حکم پر گزشتہ 16سالوں سے امام زمانہ امام مہدی (کےظہور) کوروکاہواہےاوراسلامی ممالک کی مشترکہ فوج بنا کر چالاکی سےاسکی کمان بھی اپنے قبضےمیں کی ہوئی ہےاوراپنےاپنے سینوں پرمیڈل سجاکرخودکو دنیا اور قوم کے سامنے مسیحا کےطور پر پیش کررہے ہیں۔ اور اسکے برعکس اس مکروہ فوج نے امام زمانہ امام مہدی پر تشدد کرکے اس اللہ کے بندے کو مذہب اسلام سے ہی بدظن   ا ور منحرف کردیا  ہے۔

جب پاکستانی عوام کو پتا چلے گا کہ:

 

امام مہدی کو پاکستان کی شیطانی فوج کی ہائی کمان نےاس وجہ سے محدود /قیدکیا ہوا ہے۔کیونکہ امام زمانہ امام مہدی نے  سال 2010  میں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے پاکستان سے اپنی خلافت کے قیام کاآغاز  کرکے امریکہ کی ناجائز  اولاد اسرائیل تک   لے جانے کا اعلان کیا تھا اور پاکستان سے امریکی فوج کو نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

 اور نتیجے کا گمان یہ تھا کہ پاکستانی عوام غم و غصے کی کیفیت میں پاکستانی فوجی جرنیلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، جس سے نہ صرف فوجی جرنیلوں کو بلکہ بے گناہ محب وطن پاکستانی سپاہیوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔اور جب شیطانی فوجی جرنیل اپنے مفادات کی خاطر پاکستانی سپاہیوں کو عوام کے خلاف استعمال کریں گے تو صورتحال اور بھی خراب ہو جائے گی۔ اور اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ ایسے حالات میں جب پاکستان میں خانہ جنگی جیسی کیفیت ہو تو کون ان حالات کو سنبھالے گا؟

 

لیکن آج، ایک سال بعد، میرے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں اور میں نے ایک بیک اپ پلان بھی تیار کر لیا ہے۔ اب میں دوبارہ سائینٹالوجی چرچ کی نگرانی میں اپنی  صلاحیتوں اور منصوبہ بندی کی قابلیت کو جانچنے کے لیے  آکسفورڈ  ٹیسٹ کو دہراؤں گا اور اس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے رکھوں گا۔

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                ابھی تو  کہانی  شروع ہوئی ہے، آگے پڑھیں اور جانیں کہ ہوتا ہے کیا    ؟        (جاری ہے ۔ ۔    ۔ ۔ )

 

Saturday, May 11, 2024

The Extraordinary Tale

 

    The Extraordinary Tale


"The Extraordinary Tale" is not just a memoir; it's a captivating odyssey that grips readers from the very first page. Within its pages, readers embark on a mesmerizing journey filled with unexpected twists, personal triumphs, and the raw authenticity of the human experience. This memoir is more than just a recounting of events—it's a profound exploration of what it means to be human, with all its complexities and contradictions.



The author's visionary ideas on establishing a "Universal Government", a concept that adds a compelling layer of intrigue to the narrative.







As readers delve into the depths of "The Extraordinary Tale," they are met with a tapestry of emotions that tug at the heartstrings and ignite the imagination. Through moments of vulnerability, resilience, and sheer determination, the author's narrative paints a vivid portrait of the human spirit's capacity to endure, evolve, and transcend.

What sets this memoir apart is its riveting storytelling and the author's visionary ideas on establishing a universal government—a concept that adds a compelling layer of intrigue to the narrative. As readers immerse themselves in the author's world, they are prompted to ponder profound questions about society, governance, and the future of humanity.

But perhaps the most poignant aspect of "The Extraordinary Tale" is its ability to inspire introspection and contemplation in its readers. As the story unfolds, readers are invited to reflect deeply on their lives, aspirations, and beliefs, prompting them to contemplate the future with renewed clarity and purpose.

With each turn of the page, "The Extraordinary Tale" transports readers to a world where resilience triumphs over adversity and where the human spirit shines brightest in the face of darkness. It's a testament to the indomitable nature of the human spirit and a reminder that, even in our darkest moments, there is always hope for a brighter tomorrow.

In the end, "The Extraordinary Tale" is more than just a memoir—it's a timeless testament to the limitless potential of the human spirit. It's a must-read for anyone searching for inspiration, enlightenment, and a profound glimpse into the depths of the human experience.

Discover the groundbreaking ideas of our visionary author! Our promotional sticky bar features an exclusive insight into the establishment of a universal government. Providing a fresh perspective on global governance, our author's thought-provoking concepts challenge traditional notions and pave the way for a harmonious future. Unlock the secrets of a unified world as our sticky bar showcases the author's innovative solutions and transformative vision. Don't miss out on this opportunity to expand your horizons and be inspired by bold ideas that can shape the world we live in. Join us on this intellectual journey towards a universal government, where boundaries dissolve, and unity prevails. Embark on a transformative experience today!